غزوہ مُوتہ سے واپسی کا منظر

"آج کے دَور کی بدقسمت بیوہ" 


(زنا کر لینا پر بیوہ سے نکاح نہ کرنا)


غزوہ مُوتہ سے واپسی کا منظر ہےکہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا مجاہدین کی واپسی کی خبریں سُن رہی ہیں۔ اپنے پیارے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہیں، اپنے بچوں کو بھی تیار کر لیا ہے، دُور سے آہٹ کی آواز سنائی دیتی ہے لیکن جب یہ دیکھتی ہیں کہ یہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں بلکہ نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے، حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اندازے ہی سے سمجھ جاتی ہیں کہ ان کی زندگی کے ہم سفر، ہجرت کے ساتھی اور پیارے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے بچھڑ چکے ہیں-

یہی معاملہ ہمارے معاشرے میں ہوتا تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پوری زندگی بچوں کے ساتھ تنہا حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا-

لیکن وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کا وسیعُ القلبی والا دَور تھا۔ ایک مسلمان بیوہ کو کیسے اِن حالات و جذبات کے دھکے کھانے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جاتا؟ یارِغار، غیر انبیاء میں سب سے زیادہ افضل شخص یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ نے اُنھیں اپنی زوجیت میں لے لیا اور بچوں کو باپ جیسی گھنی شفقت اور محبت میسر آ گئی، اللہ نے اُنھیں ایک بیٹا بھی عطا فرما دیا۔

پھر کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہو گیا، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے غسل دلوایا۔ دو دفعہ بیوہ ہونا ہمارے تنگ نظر معاشرے کے لئے تو انہونی بات ہے کہ وہ غیرت مند رجلان ان باتوں سے ناواقف تھے، مسلمان عورت کو فوراً معاشرتی دھارے کی زندگی میں ہم آہنگ کر لیا جاتا تھا تاکہ اسے تن تنہا نفسیاتی اور جذباتی جنگ نہ لڑنی پڑ جائے۔ اس دفعہ آگے بڑھنے والے غیرت کے پیکر کوئی اور نہیں؛ بلکہ شیرِ خدا، ابو تراب، فاتحِ خیبر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی بھی تھے لیکن آپ نے صرف بھتیجوں کی کفالت ہی نہیں کی بلکہ فرزندِ ابوبکر کو بھی اسی محبت سے پالا جیسے اپنے بھتیجوں کو پالا-

یہ کیسا معاشرہ تھا جو ایسی عورت کے حقوق کا بھی محافظ تھا یہ سُن کے رشک آتا ہے۔ ہم صحابہ کرام کے دور میں پیدا ہونے کی خواہش بھی کرتے ہیں، ان جیسا بننا بھی چاہتے ہیں، لیکن جب نفس پر زد آئے تو خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

بیوہ اور اس کے بچوں کو تحفظ دینا ایسا اس معاشرے میں رچا بسا کام تھا کہ اس کے لئے کوئی تقریرکرنے، کوئی مہم چلانے، کوئی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔

اور ہمارا معاشرہ اور ہمارے رویے----؟؟؟

ایک اور پاکیزہ صحابیہ حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال سامنے رکھنا چاہوں گا- پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ سے ہوا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت خوبصورت تھیں اور اس جوڑے کی محبت عرب میں ایک مثال بن گئی تھی- حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ نے ایک دن محبت میں آ کر ان سے عہد کروا لیا کہ اگر میں آپ کی زندگی میں وفات پا گیا تو آپ دوسرا نکاح نہیں کریں گی۔

پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ کچھ عرصہ بعد شہید ہو گئے لیکن اس معاشرے میں بیوہ خاتون کو تنہا چھوڑنے کی مثال محیر العقل تھی، اس لئے بڑوں کے سمجھانے پر آپ نکاحِ ثانی کے لئے راضی ہو گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ جو آپ کے چچا زاد بھائی بھی تھے اُنہوں نے حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ بھی شہید ہو گئے۔ عدت پوری ہونے کے بعد عشرہ مبشرہ صحابی حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ نے نکاح کا پیغام بھیجا اور اب حضرت عاتکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے نکاح میں آ گئیں۔ کچھ عرصہ بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٰ نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ 

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں عرب میں مشہور ہو گیا تھا کہ جِسے شہادت کی تمنا ہو وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لے- اسی مناسبت سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شہداء کی زوجہ کہا جاتا تھا۔ اس عظیم مثال کا اپنے معاشرے سے مقابلہ کریں!.

اللہ اللہ...کیسا کھلے دل والا معاشرہ تھا اور ہم اور ہمارا معاشرہ کیسا تنگ نظر اور گھٹن کا شکار معاشرہ ھے، ایسا معاشرہ جہاں بیوہ کو تن تنہا حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، جن مشکلات و مصائب کے پہاڑ، مردوں کی بج رکھیں! صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہماری طرح گفتار کے غازی نہیں، بلکہ کردار کے بھی غازی تھے۔

Post a Comment

0 Comments

Comments