عجیب دکھ ہے ہواؤں کے تازیانوں میں
چراغ بجھنے لگے شہر کے مکانوں میں
مری صداؤں پہ پہرہ لگانے والے سن
مرا سکوت بھی چیخے گا تیرے کانوں میں
کرے گا کون محبت پہ گفتگو ان سے
ہیں زہر ذائقے احباب کی زبانوں میں
افق پہ میری اداسی کے رنگ پھیلتے دیکھ
بکھر گئے ہیں مرے زخم آسمانوں میں
تمام شہر جسے آنکھ میں لیے ہوئے ہے
وہ شخص بھی تھا کبھی میرے میزبانوں میں
کٹے پروں سے اڑی ہوں تو انگلیاں نہ اٹھا
تمہارا ہاتھ نہیں ہے مری اڑانوں میں
کسی میں کیسے کھلے میری شاعری کا فسوں
مری غزل ہے مری ذات کے جہانوں میں
مرے وجود سے انکار کرنے والے شخص
میں مانگتی رہی ہو تجھ کو آستانوں میں
سعدیہ صفدر سعدی
0 Comments